یہ سچا واقعہ میرے ایک دوست کو اس کے دوست نے سنایا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ میں خانہ خدا میں عمرہ کے دوران طواف کر رہا تھا کہ میں نے ایک پاکستانی دیکھا جس نے دوران طواف ایک ہاتھ میں ایک برتن پکڑا ہوا تھا جس کے اندر برف تھی اور اس نے اپنا دوسرا ہاتھ برتن کے اندر برف میں رکھا ہوا تھا۔ اتفاق سے جب میں طواف سے فارغ ہو کر نماز پڑھ رہا تھا تو وہ شخص بھی میرے ساتھ نماز ادا کر رہا تھا۔ نماز سے فارغ ہو کر جب میں نے اس سے پوچھا کہ آپ نے اپنا ایک ہاتھ برف میں کیوں رکھا ہوا ہے تو اس نے بتایاکہ یہ ہاتھ آگ سے جل گیا تھا۔ میں فلاں جگہ دکاندار تھا۔ میری دکان پر بہت سے گداگر مانگنے کے لئے آتے تھے ان میں سے ایک گداگر میرا دوست بن گیا وہ اکثر دکان میں بیٹھ جاتا میں اور وہ گپ شپ لگاتے۔ ایک دفعہ کافی دن گزر گئے وہ نہیں آیا آخر کار ایک شخص اس کا پیغام لیکر آیا۔ پیغام میں اس نے کہا کہ میں بہت زیادہ بیمار ہوں۔ مہربانی فرما کر مجھے ایک مرتبہ ملنے لازمی آﺅ کیونکہ تیرے علاوہ میرا کوئی دوست یا رشتے دار نہیں ہے۔ میں اس کے گھر گیا تو وہ واقعی بہت بیمار تھا۔ اس نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ میں بچ پاﺅنگا۔ اگر میں مر گیا تو میرا ایک کام لازمی کرنا میں نے گداگری کر کے جو دولت اکٹھی کی ہے وہ میرے ساتھ قبر میں رکھ دینا کیونکہ مجھے اس دولت سے بہت پیار ہے۔ میں نے اس دولت کی خاطر سب کچھ چھوڑ دیا تھا۔ گداگری کی لت نے مجھ سے سارے رشتے چھین لئے تھے مگر مجھے رشتوں سے زیادہ گداگری عزیز تھی۔ مجھے امید ہے کہ تم میرا یہ کام لازمی کرو گے۔ تھوڑے دنوں کے بعد وہ گداگر مر گیا میں نے اس کے کفن دفن کا انتظام کیا اور اس کی وصیت کے مطابق نوٹوں سے بھری بوریاں اس کی قبر میں اس کے ساتھ رکھ دیں۔
میں دوبارہ حسب معمول زندگی میں مصروف ہو گیا مگر میرا کاروبار دن بدن زوال پذیر ہونے لگا۔ میں مقروض ہوتا چلا گیا۔ ایک دن مجھے بیٹھے بیٹھائے خیال آیا کہ اس گداگر کی قبر میں نوٹوں کی بوریاں پڑی ہوئی ہیں بھلا وہ دولت اس مردے کے کس کام کی ہے۔ میں اسے نکالنے کے لئے اس کی قبر پر پہنچ گیا مجھے پتہ تھا کہ نوٹوں کی بوریاں کس سمت پر پڑی ہیں۔ میں نے اس سمت میں گڑھا کھودا جب بوری نکالنے کے لئے قبر کے اندر ہاتھ ڈالا تو قبر کے اندر سے آگ کا ایک گولہ میرے ہاتھ کو لگا۔ میں نے فوری ہاتھ باہر نکال لیا ہاتھ پر ظاہری طور پر کوئی زخم نہیں ہوا مگر آگ کا درد ہاتھ کے اندر ایسا گیا کہ کہیں سے کسی دوائی سے آرام نہیں آیا۔ میں اس ہاتھ کو برف میں رکھتا ہوں تو مجھے تھوڑا سا سکون مل جاتا ہے وگرنہ درد ناقابل برداشت ہے۔ میں یہ سوچتا ہوں کہ ایک لمحہ کی آگ اگر اثر رکھتی ہے تو مردے کے ساتھ کیا ہوا ہو گا؟
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں